اہل البیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، جیسے جیسے بہار اسمبلی انتخابات قریب آ رہے ہیں، سیاسی بیانات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا نیاز فاروقی نے ایک خصوصی گفتگو میں مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن آف انڈیا پر سنگین سوالات اٹھائے۔
مولانا فاروقی نے بہار الیکشن مہم کے دوران مسلمانوں کی آبادی اور نام نہاد غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق دیے جانے والے بیانات کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے اپیل کی کہ وہ ایسے بیانات سے گریز کریں جو معاشرے میں تفریق پیدا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بہار کے ووٹر لسٹ کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تقریباً پچاس لاکھ ووٹرز کے نام فہرست سے حذف کر دیے گئے ہیں، جو ایک سنگین معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ انتخابی نتائج کو متاثر کر کے اقتدار حاصل کیا جا سکے۔
مولانا فاروقی نے کہا “اگر پچاس لاکھ جعلی ووٹرز تھے تو انہیں ووٹر لسٹ میں شامل کس نے کیا؟ الیکشن کمیشن نے اس وقت کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ووٹر لسٹ میں تبدیلی انتخابی نتائج پر اثر ڈالنے کے لیے کی گئی۔
غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ایک بار پھر بلاوجہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب اسی نوعیت کا مسئلہ آسام میں اٹھایا گیا تھا تو بعد میں عدالتوں نے قرار دیا کہ یہ دعوے سیاسی مقاصد پر مبنی تھے، حقائق پر نہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ آنے والے بہار انتخابات میں بحث کا مرکز ترقی، روزگار اور تعلیم جیسے حقیقی مسائل ہونے چاہئیں، نہ کہ مذہب، ذات یا برادری۔
جب ان سے اسد الدین اویسی کے حالیہ بیانات پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، جبکہ ہم کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں، اس لیے ان کے بیانات پر تبصرہ مناسب نہیں۔
البتہ انہوں نے مزید کہا یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں کسی مسلمان کا بیٹا وزیرِ اعلیٰ یا وزیرِ اعظم نہیں بن سکتا؟ اگر مسلمانوں کی آبادی ملک کی کل آبادی کا ۱۵ فیصد ہے تو انہیں اپنی ۱۵ فیصد نمائندگی کا حق بھی ملنا چاہیے۔ اگر یہ حق چھینا جائے تو سوالات اٹھنا فطری ہیں۔
آپ کا تبصرہ